پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، خصوصاً اس کے شمالی علاقہ جات میں دنیا کے سب سے بڑے گلیشیئرز (Glaciers) پائے جاتے ہیں جو نہ صرف قدرتی حسن کا مظہر ہیں بلکہ کروڑوں افراد کے لیے پانی کا بنیادی ذریعہ بھی ہیں۔ لیکن موسمیاتی تبدیلی (Climate Change) نے ان گلیشیئرز کو شدید خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا ایک نہایت تشویش ناک عمل ہے جو مستقبل قریب میں پاکستان کو پانی کے شدید بحران سے دوچار کر سکتا ہے۔

پاکستان میں گلیشیئرز کی اہمیت
پاکستان میں تقریباً 7,000 گلیشیئرز پائے جاتے ہیں، جو کہ دنیا میں قطب شمالی اور جنوبی کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔ یہ گلیشیئرز ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں میں واقع ہیں۔ ان سے بہنے والا پانی دریائے سندھ اور اس کی ذیلی نہروں کے ذریعے پورے ملک کے زرعی نظام، گھریلو استعمال، صنعتوں اور توانائی کے شعبوں میں استعمال ہوتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا اثر
اقوامِ متحدہ کی مختلف رپورٹس اور پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے اعدادوشمار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان میں درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ 20 سالوں میں شمالی علاقوں میں درجہ حرارت میں 1.5 سے 2 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس سے گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈز (GLOFs)
جب گلیشیئرز تیزی سے پگھلتے ہیں تو ان کے نیچے جھیلیں بننے لگتی ہیں جنہیں "گلیشیئر لیکس” کہا جاتا ہے۔ جب یہ جھیلیں پھٹتی ہیں تو نیچے کے علاقوں میں تباہ کن سیلاب آتے ہیں، جنہیں GLOFs کہا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں ایسے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں درجنوں افراد جاں بحق اور سینکڑوں گھر تباہ ہوئے۔
پاکستان کا آبی انحصار اور خطرات
پاکستان کی زرعی معیشت کا انحصار دریاؤں پر ہے، جن کا منبع یہی گلیشیئرز ہیں۔ لیکن اگر گلیشیئرز تیزی سے پگھل گئے تو ایک طرف وقتی طور پر پانی کی فراوانی ہو گی، لیکن چند دہائیوں میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی۔
دوہرے خطرات:
-
سیلاب: گلیشیئرز کے پگھلنے سے آنے والے سیلاب فوری تباہی مچاتے ہیں۔
-
خشک سالی: جب گلیشیئرز مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے تو دریاؤں میں پانی کی فراہمی کم ہو جائے گی، جس سے زراعت، پینے کا پانی اور بجلی کی پیداوار متاثر ہو گی۔
حکومتی اقدامات
پاکستان نے گلیشیئرز کی حفاظت اور GLOFs سے بچاؤ کے لیے چند اقدامات کیے ہیں، جن میں قابل ذکر ہے:
-
GLOF-II منصوبہ: یہ منصوبہ اقوام متحدہ کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے تاکہ گلیشیئر جھیلوں کی نگرانی، خطرے کی پیشگی اطلاع اور مقامی کمیونٹی کی تربیت ممکن بنائی جائے۔
-
10 بلین ٹری سونامی پروگرام: یہ منصوبہ درجہ حرارت میں کمی لانے اور ماحول کو محفوظ بنانے کے لیے جاری ہے، لیکن اس کا اثر محدود اور طویل المدتی ہو سکتا ہے۔
-
کلائمیٹ چینج پالیسیز: وزارتِ موسمیاتی تبدیلی نے مختلف پالیسیاں بنائی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
چیلنجز
-
وسائل کی کمی: گلیشیئرز پر تحقیق، نگرانی اور خطرات سے بچاؤ کے لیے مالی اور تکنیکی وسائل کی کمی ہے۔
-
عوامی شعور کا فقدان: بیشتر عوام کو گلیشیئرز کی اہمیت اور ان سے جڑے خطرات کا علم نہیں ہے۔
-
سیاسی عدم استحکام: موسمیاتی تبدیلی جیسے اہم مسئلے کو اکثر سیاسی ایجنڈا نہیں بنایا جاتا۔
حل اور تجاویز
-
تحقیقی مراکز کا قیام: حکومت کو چاہیے کہ شمالی علاقہ جات میں ماحولیاتی تحقیقی مراکز قائم کرے تاکہ گلیشیئرز پر مستقل تحقیق ہو سکے۔
-
عوامی آگاہی مہم: میڈیا، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے ذریعے عوام میں موسمیاتی تبدیلی اور پانی کے بحران پر شعور پیدا کیا جائے۔
-
بین الاقوامی تعاون: پاکستان کو چاہیے کہ ترقی یافتہ ممالک سے ٹیکنالوجی اور فنڈز حاصل کرے تاکہ وہ موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے قابل ہو سکے۔
-
پانی کے ذخائر: چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر کیے جائیں تاکہ گلیشیئرز سے آنے والے پانی کو محفوظ کیا جا سکے۔
نتیجہ
پاکستان کا مستقبل گلیشیئرز کی بقا سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ہم نے فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے تو گلیشیئرز کے پگھلنے سے پیدا ہونے والا پانی کا بحران زراعت، صنعت، توانائی اور انسانی زندگی کو شدید متاثر کرے گا۔ یہ وقت ہے کہ ہم گلیشیئرز کی حفاظت کو قومی ترجیح بنائیں، اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ پانی کا بندوبست کریں۔
