دنیا تیزی سے ڈیجیٹل دور میں داخل ہو چکی ہے۔ پاکستان میں بھی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے استعمال میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جہاں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے زندگی آسان بنائی ہے، وہیں سائبر ہراسمنٹ جیسے نئے مسائل نے جنم لیا ہے۔ خواتین خاص طور پر اس خطرے کا شکار ہیں۔
یہ مسئلہ صرف آن لائن تنگ کرنے یا غیر اخلاقی پیغامات تک محدود نہیں بلکہ خواتین کی ڈیجیٹل پرائیویسی کو بھی شدید خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ تصاویر، ویڈیوز، ذاتی معلومات کا لیک ہونا، بلیک میلنگ، اور کردار کشی آج عام ہو چکی ہے۔
یہ مضمون سائبر ہراسمنٹ کے پہلو، وجوہات، اثرات، قوانین، اور اس کے سدباب پر تفصیل سے روشنی ڈالے گا۔

سائبر ہراسمنٹ کیا ہے؟
سائبر ہراسمنٹ سے مراد وہ تمام اقدامات ہیں جو انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، یا کسی بھی ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر خواتین کو خوفزدہ، شرمندہ، یا نقصان پہنچانے کے لیے کیے جائیں۔ مثلاً:
-
غیر اخلاقی پیغامات یا ایمیلز
-
سوشل میڈیا پر نازیبا تبصرے
-
ذاتی معلومات یا تصاویر لیک کرنا
-
جعلی اکاؤنٹس بنا کر بدنام کرنا
-
فحش مواد کے ساتھ تصاویر ایڈٹ کرکے شیئر کرنا
-
بلیک میلنگ یا دھمکیاں دینا
-
آن لائن اسٹاکنگ
سائبر ہراسمنٹ کی اقسام
۱. لفظی حملے (Verbal Abuse)
گالی گلوچ، نازیبا زبان، یا جنسی اشارے والے پیغامات بھیجنا۔
۲. ڈیجیٹل بلیک میلنگ
ذاتی تصاویر یا ویڈیوز لیک کرنے کی دھمکیاں دے کر پیسے یا ناجائز مطالبات کرنا۔
۳. آن لائن اسٹاکنگ (Online Stalking)
کسی کی پوسٹس، تصاویر، لوکیشن، اور سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور بار بار غیر ضروری رابطہ کرنا۔
۴. امیج یا ویڈیو مورفنگ
خواتین کی تصویروں کو فحش یا جھوٹی تصاویر میں ایڈٹ کرنا۔
۵. جعلی اکاؤنٹس بنانا
خاتون کے نام یا تصاویر استعمال کرکے جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنا کر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانا۔
۶. پرائیویسی بریک (Privacy Breach)
ای میل ہیکنگ، فون ہیکنگ، یا ذاتی ڈیٹا چوری کرنا۔
پاکستان میں سائبر ہراسمنٹ کے اعداد و شمار
حالیہ سالوں میں سائبر ہراسمنٹ کیسز میں شدید اضافہ ہوا ہے:
-
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے مطابق، ۲۰۲۱ میں ان کے ہیلپ لائن پر ۱۱،۰۰۰ سے زائد شکایات موصول ہوئیں، جن میں ۶۰ فیصد سے زیادہ متاثرین خواتین تھیں۔
-
زیادہ تر شکایات فیس بک، واٹس ایپ، اور انسٹاگرام پر ہراسمنٹ سے متعلق تھیں۔
-
دیہی علاقوں کی خواتین شکایت کرنے میں زیادہ ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
یہ اعداد و شمار صرف رجسٹرڈ کیسز پر مبنی ہیں۔ اصل متاثرہ خواتین کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ شرمندگی یا خوف کے باعث اکثر کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
سائبر ہراسمنٹ کے اثرات
سائبر ہراسمنٹ کے اثرات صرف ڈیجیٹل دائرے تک محدود نہیں بلکہ خواتین کی حقیقی زندگی پر بھی گہرے اثرات ڈالتی ہے:
نفسیاتی اثرات
-
ڈپریشن اور اینگزائٹی
-
خوف اور ذہنی دباؤ
-
خود اعتمادی میں کمی
-
نیند کی کمی
سماجی اثرات
-
خواتین سوشل میڈیا پر غیر فعال ہو جاتی ہیں۔
-
خاندان یا دوستوں سے دوری اختیار کر لیتی ہیں۔
-
بعض اوقات متاثرہ خاتون کو معاشرتی رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تعلیمی اور پیشہ ورانہ اثرات
-
لڑکیاں ہراسمنٹ کے ڈر سے آن لائن کلاسز، ورکشاپس یا ورک پلیس گروپس میں حصہ لینے سے گریز کرتی ہیں۔
-
بعض خواتین ملازمت چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
سائبر ہراسمنٹ کی وجوہات
پاکستان میں سائبر ہراسمنٹ کے بڑھتے واقعات کے پیچھے کئی وجوہات ہیں:
۱. سماجی رویے
-
عورت کو کمزور اور تابع سمجھنا۔
-
مردوں کا خیال کہ آن لائن ہراسمنٹ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
۲. قانونی نظام کی کمزوری
-
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ پر بوجھ زیادہ ہے۔
-
کیسز سالوں تک لٹک جاتے ہیں۔
۳. تکنیکی لاعلمی
-
خواتین کو پرائیویسی سیٹنگز یا سوشل میڈیا سکیورٹی کا علم کم ہوتا ہے۔
۴. ڈیجیٹل خواندگی کی کمی
-
انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو یہ علم نہیں کہ آن لائن کنڈکٹ بھی قانون کے دائرے میں آتا ہے۔
قانونی پہلو
پاکستان میں سائبر ہراسمنٹ کے خلاف قوانین موجود ہیں، خاص طور پر:
پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016
یہ قانون درج ذیل باتوں کو جرم قرار دیتا ہے:
-
کسی کی تصاویر یا ویڈیوز بغیر اجازت شیئر کرنا۔
-
غیر اخلاقی مواد بھیجنا یا شیئر کرنا۔
-
جعلی اکاؤنٹس بنانا۔
-
آن لائن بلیک میلنگ۔
-
سائبر اسٹاکنگ۔
سزا:
-
قید ۳ سے ۷ سال تک
-
جرمانہ ۱۰ لاکھ روپے تک
چیلنجز:
-
مقدمات کا ثبوت اکٹھا کرنا مشکل۔
-
متاثرہ خواتین کا مقدمہ درج کرانا دشوار۔
-
پولیس اور عدلیہ میں تربیت کی کمی۔
ڈیجیٹل پرائیویسی کا تصور
ڈیجیٹل پرائیویسی سے مراد وہ حق ہے کہ ہر شخص اپنی ذاتی معلومات اور آن لائن سرگرمیوں پر کنٹرول رکھے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں:
-
خواتین کی تصاویر یا ویڈیوز بغیر اجازت وائرل کی جاتی ہیں۔
-
موبائل فون چوری ہو جائے تو ذاتی ڈیٹا لیک ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
-
بعض اوقات قریبی رشتہ دار ہی پرائیویسی توڑتے ہیں۔
-
واٹس ایپ گروپس میں خواتین کے اسکرین شاٹ شیئر کیے جاتے ہیں۔
یہ سب خواتین کی ساکھ اور عزت پر سنگین حملہ ہے۔
سائبر ہراسمنٹ کا سدباب
۱. آگاہی اور تعلیم
-
لڑکیوں اور خواتین کو سائبر سیکیورٹی سکھائی جائے۔
-
اسکولز اور کالجز میں ورکشاپس کا انعقاد۔
-
سوشل میڈیا پر پبلک سروس میسجز۔
۲. قانونی اصلاحات
-
PECA میں فوری انصاف کے لیے ترامیم۔
-
سائبر کرائم ونگ کی استعداد بڑھانا۔
-
پولیس اور عدلیہ کی خصوصی تربیت۔
۳. ٹیکنالوجی کا استعمال
-
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن ہیلپ لائن (0800-39393)
-
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر رپورٹنگ ٹولز کا استعمال۔
-
موبائل ایپلیکیشنز جو فوری مدد فراہم کریں۔
۴. سماجی رویے میں تبدیلی
-
مرد حضرات کی تربیت کہ خواتین کی پرائیویسی کا احترام کریں۔
-
متاثرہ خواتین کو قصوروار نہ ٹھہرایا جائے۔
-
معاشرتی شرمندگی ختم کی جائے۔
نتیجہ
سائبر ہراسمنٹ پاکستان میں خواتین کے لیے سب سے بڑا جدید چیلنج ہے۔ یہ نہ صرف ان کی آزادی بلکہ ان کی عزت اور ذہنی صحت پر بھی حملہ ہے۔ اگر ہم نے بروقت اور موثر اقدامات نہ کیے تو یہ مسئلہ مزید سنگین ہوتا جائے گا۔ خواتین کو ایک محفوظ ڈیجیٹل اسپیس دینا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔

Start earning on autopilot—become our affiliate partner! https://shorturl.fm/XaCUZ
Promote, refer, earn—join our affiliate program now! https://shorturl.fm/OQy5x
Start sharing our link and start earning today! https://shorturl.fm/RMiMy
Get paid for every click—join our affiliate network now! https://shorturl.fm/cAJQn
I’m not that much of a internet reader to be honest but your sites really nice, keep it up!
I’ll go ahead and bookmark your website to come back later.
Many thanks